۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آغا حامد علی موسوی

حوزہ / تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا: تعلیمی نصاب سے کربلا کو مٹا ڈالنے والوں کی زبان پر حسینیتؑ کی باتیں نہیں جچتیں۔ نئے اور پرانے حکمران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے یومِ شہادتِ مختارِ آلِ محمدؐ پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب میں کہا: نصاب سے کربلا کو مٹا ڈالنے والوں کی زبان پر حسینیتؑ کی باتیں نہیں جچتیں۔ نئے اور پرانے حکمران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ اگر حکومتوں کے دوران بھی کربلا کو یاد رکھا جائے تو کوئی سُپر پاور اور طاغوت ایک ملک تو کُجا 72 افراد کو بھی زیر نہیں کر سکتی۔

انہوں نےکہا: سیاستدان بیانیہ بناتے وقت ہزار بار سوچیں کہ ایک دشمن ہر وقت پاکستان کی سرحدوں پر بیٹھا ہے۔ اسے تقویت نہ دی جائے۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا: بدلتے حالات میں قومی اداروں کے ساتھ رویوں کا تبدیل ہونا پاکستانی سیاست کا المیہ ہے، وطنِ عزیز مزید بیرونی جنگوں کا اکھاڑہ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید کہا: عشقِ مصطفیٰ (ص) تجارت یا حکومت چِھن جانے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ شانِ رسالتؐ کے تحفظ کیلئے مختار ؒ کا جذبہ درکار ہے، دوست زیادہ اور دشمن کم بنائے جائیں۔

تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ کے سربراہ نے کہا: زندہ قومیں اپنے اداروں کا تحفظ کرتی ہیں۔ فاتحِ ایران کے فرزند حضرت مختار ؒ کی شجاعت و عشقِ رسالتؐ پر تاریخ سدا ناز کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا: عدلیہ اور فوج کی عزت کو مرضی کے فیصلوں کے ساتھ مشروط نہ کِیا جائے، نصاب سے کربلا کو مٹا ڈالنے والوں کی زبان پر حسینیتؑ کی باتیں نہیں جچتیں نئے اور پرانے حکمران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں نادان مشیروں سے دور رہیں، مفادات پورے نہ ہونے پر قومی اداروں کے ساتھ رویوں کا بدل جانا پاکستانی سیاست کا المیہ ہے۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا: پاکستانی سیاست کی بدقسمتی ہے کہ ضرورت کے وقت تمام سیاستدانوں نے فوج کو سیاست میں ملوث کیا اور مفاد پورے ہونے پر مطعون کیا، جب عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت فیصلے کئے تب بھی فائدہ اٹھانے والے سیاستدان ہی اس کے دفاع میں سامنے آتے رہے اور جب انہی مفاداتی سیاستدانوں کے مفادات پر ضرب پڑتی تو وہ اداروں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آتے رہے۔ جس کی وجہ سے اداروں سے زیادہ ملک کونقصان پہنچا حتیٰ کہ ملک دولخت ہو گیا۔

انہوں نے کہا: وطنِ عزیز پاکستان میں "جانے والے کو گالی آنے والے کو تالی" جیسی روش چلی آ رہی ہے۔ کسی بھی حکومت کے غلط فیصلوں سے عبرت اور اچھے فیصلوں کو جاری رکھنا ہی جمہوریت کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ زندہ قومیں اپنے اداروں کا تحفظ کرتی ہیں اور انہیں بامِ عروج پر پہنچاتی ہیں۔ مفادات پورے نہ ہونے پر اداروں کی بنیادیں کھودنے کی راہ پر چل نکلنا افسوسناک ہے۔

آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا: مختار ؒ وہ غازیِ اعظم ہیں جنہوں نے ہزاروں شاتمانِ رسالتؐ کو ان کے انجام تک پہنچایا۔ مختار ؒ وہ عظیم المرتب ہستی ہیں جن کے نام شافعِ محشر نبیِ کریم محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکتوب تحریر فرمایا، شیرِ خدا امیر المومنین حضرت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مختار ؒ کو اپنی آغوش میں کھلایا، سردارِ جنت حضرت امام حسن علیہ السلام نے آپ کی مواسات قبول کی اور سب سے بڑھ کر حضرت امام حسینؑ نے یومِ عاشور اپنی شہادت کے وقت آپ کو یاد فرمایا، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے آپ کی مدح کی اور آپ کے ہدایا قبول کئے۔ حضرت امام باقرؑ نے آپ کے کارناموں پر ستائش فرمائی، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کے عظیم کارناموں پر آپ کو دعاؤں سے نوازا۔

انہوں نے آخر میں کہا: عالمی سطح پر رُشدیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے سیرتِ مختار ؒ کا اپنانا ضروری ہے۔ اگر ہم زندہ قوم ہیں اور قائدِ اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال ؒ کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عزت و حفاظت ہو اور دشمن کی ہر سازش ناکام ہو تو ریاست کے ستون سمجھے جانے والے تمام اداروں، عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ سمیت تمام اداروں کی عزت و حرمت کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .